Tuesday, March 28, 2017

HAZRAT KHWAJA MOINUDDEEN CHISHTI RAHEMATULLAH ALAIH

IS POST KE DUSRE PAGE [ 2 ] KO PADHNE KE LIYE YAHAN CLICK KRE....👇👇👇👇👇

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

تمہید

       اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا یہ بے پناہ احسان اور اس کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ساری مخلوق میں سب سے افضل اور اشرف بنایا ۔ اور ہمیں اپنے پیارے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں اپنے بندوں کی ہدایت اور رہِ نمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں مبعوث فرمایا، تاکہ وہ اس کے بندوں کو کفر و شرک اور گمراہیت و ضلالت کی تاریکی سے نکال کر وحدہٗ لاشریک جل شانہٗ کی بارگاہِ اقدس میں سجدہ ریز کریں اور اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے اس کے نبیوں اور رسولوں کی نبوت اور رسالت کو بھی سچے دل سے تسلیم کریں ۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ چاہتا تو اپنے نبیوںاور رسولوں کو دنیا میں بھیجے بغیر بھی لوگوں کو سیدھے راستے پر لاسکتا تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں کسی کا محتا ج نہیں ہے بل کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اسی کا محتاجِ کرم ہے ۔ لیکن یہ اس کی مرضی اور مشیت ہے کہ اس کے بندے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرکے حق کی راہ میں مشقتیں جھیلیں تاکہ وہ اپنے فضل اور عطا ے خاص سے انھیں بلند درجات سے نوازے ۔

       چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کی بجا آوری کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو عہد بہ عہد مبعوث فرمایا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب احمدِ مجتبیٰ محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دروازۂ نبوت و رسالت کو بند کردیا ۔ اب اگر اس کے بندے گمراہی اور ضلالت میں مبتلاہوں گے تو ان کی ہدایت و رہِ نمائی کے لیے اس نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ عظیم منصب امتِ محمدیہ کے سپرد کردیا ۔اب دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور اس کے تحفظ و استحکام کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں علما، صلحا، صوفیہ اور اولیا کو منتخب فرماکر ان کے مقامات کو بلند فرمادیا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے العلماء ورثۃ الانبیاء (علما انبیا کے وارث ہیں ) کا مژدہ سنا کر علما کی عزت بڑھائی ۔جہاںعلماے اسلام مدارس میں اپنے درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کے ذریعے اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیں گے وہیں اولیا و صوفیہ اپنی خانقاہوں میں بیٹھ کر بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے ان کی طہارتِ نفس اور تزکیۂ باطن کا کام انجام دیں گے ۔ یہی وہ دو جماعتیں ہیں جو انسانوں کا رشتہ فانی دنیا سے توڑ کر باقی رہنے والی ذات خداے وحدہٗ لاشریک سے جوڑتی ہیں ۔ ان دونوں کا رتبہ اپنی اپنی جگہ بلند وبالا ہے ۔

       پوری دنیا میں اولیا و صوفیہ نے اسلام کی ترویج و تبلیغ میں جو نمایاں کردار ادا کیاہے وہ اہلِ فہم پر روشن ہے۔ تبلیغِ دین کے لیے جہاں بادشاہانِ اسلام اور سپہ سالارانِ اسلام نے اپنی فتوحات کے پرچم بلند کیے وہیں اولیا ے اسلام نے اپنی روحانی توجہات سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کیا ۔ سرزمینِ ہندوستان پر جواں سال سپہ سالار محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر سلطان شہاب الدین غوری تک تمام فاتحین کا مقصد ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت تھا۔ ان سلاطین کے حملوں کے دوران ہندوستان میں اولیا و صوفیہ اور علما کے قافلے بھی یکے بعد دیگرے وارد ہوتے رہے اور اسلام کی اشاعت میں مصروف رہے ۔ جب ان بادشاہوں کو عروج و اقبال حاصل ہونے لگا تو ان کے اندر دنیا سے محبت، جاہ و منصب اور سیم و زر کی ہوس پیدا ہونے لگی اور ان کی ساری توجہ اپنے ذاتی وقار کی طرف مرکوز ہوگئی ، آپسی رسہ کشی اور خانہ جنگی بھی بعض علاقوں میں ہونے لگی ۔ لیکن علماو اولیا نے ایسے دور میں دین و مذہب کی تبلیغ کے لیے اپنے آپ کو مصروف رکھا اور بادشاہوں اور امرا کے دربار سے دوری اختیار کیے رہے۔حقیقت تو یہی ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کو جتنی تقویت ان اولیا و صوفیہ سے پہنچی و ہ بادشاہانِ زمانہ سے نہیں پہنچی ۔یہ انھیں حضرات کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ برِ صغیر ہندوپاک میں آباد مسلمانوں کی تعدا د پوری دنیاے اسلام کے مجموعی اعداد کے شمار سے کہیں زیادہ ہے۔

       بادشاہوں اور سلطانوں نے اپنی طاقت کے بل پر ہندوستان کی زمینوں کو تو فتح کرلیا لیکن اہلِ ہند کے دلوںپر فتح پانے میں وہ بری طرح ناکام ہوگئے ۔ یہ کام اولیا و علما نے بہ حسن و خوبی انجام دیا اور اپنے اعلا اَخلاق و کردار اور بے لوث خدمت کے سبب ہندوستانیوں کے دلوں کو تسخیر کرلیا ۔ یہاں کے مقامی راجا اور نواب اپنی رعایا پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑرہے تھے ان علما و اولیا نے اپنی کوششوں سے ان مظلوموں کے دکھ درد کا مداوا کیا اور انھیں سکون و اطمینان کی لذت سے ہم کنار کیا ۔ ان بے نفس اور پاک باز ہستیوں کی اخلاص و للہیت سے پر دعوت و تبلیغ کا یہ حسین ثمرہ ہے کہ آج دنیاے اسلام میں ہندوستان اسلامی روحانیت کا ایک بڑا مرکز کہلاتا ہے ۔

       بادشاہوں کی حکومتیں اور ان کا اقتدار تو ان کی نااہلی اور آپسی چپقلش کی وجہ سے ختم ہوگیا لیکن علما و اولیا کی سلطانی اور حکم رانی آج بھی قائم و دائم ہے جس کا نظارا ہندوستان بھر میں پھیلے ان بزرگوں کو مزارات اور مقابر پر دیکھنے کو ملتا ہے ۔ بلالحاظِ مذہب و رنگ و نسل ان حضرات کی مزارات پر لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ برصغیر میں کفر و شرک کے اندھیروں سے اسلام کی روشنی میں لانے والے مبلغین میں سب سے نمایاں ہستی سلسلۂ چشت کے قد آور بزرگ سلطان الہند خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ جن کی برکت سے راجپوتانہ کی سر زمین میں اسلام کی اشاعت ہوئی اور جن کے قدموں کی برکتوں سے ہندوستان پر مسلم حکم رانوں نے اپنی سلطنت قائم کی ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات سے لاکھوں انسانوں نے اسلام کا نورِ یقین حاصل کیا اورسلسلۂ چشتیہ سے منسلک آپ کے بالواسطہ یا بلاواسطہ خلفا و مریدین نے پورے ملکِ ہندوستان میں تبلیغِ اسلام کا وہ کارنامہ انجام دیا جسے تاریخِ اسلام میں  قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

       پو رے ملک میں جو لوگ ان حضرات کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرتے یہ انھیں تمام گناہوں سے توبہ کراتے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری کا عہد لیتے بے حیائی و بداَخلاقی ، ظلم و زیادتی اور لوگوں کے حقوق کی پامالی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ، حسنِ اَخلاق کی ترغیب دیتے اور برے اعمال و افعا ل بچنے کی تاکید فرماتے ۔ ذکرِ الٰہی اور تقوا و پرہیزگاری کا درس دیتے ۔ یہ ان ہی پاک باز ہستیوں کی بے لوث اور مخلصانہ تبلیغ کا اثر ہو اکہ ہندوستانی عوام کے دل ان حضرات کی طرف پھِر گئے اور انھوں نے اسلام کی آغوش میں آجانے میں ہی دونوں جہاں کی نجات تصور کیا ۔

سلسلۂ چشتیہ اور سرزمینِ ہند

       اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں لوگوں کی روحانی تربیت اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور تحفظ و استحکام کے لیے طریقت کے جس خاندان کو منتخب فرمایا وہ سلسلۂ چشت ہے اس سلسلہ کی نام ور اور بزرگ ہستی خواجہ غریب نواز حضرت معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان میں اسلامی حکومت کی بنیاد سے پہلے ہی اس بات کا غیبی طور پر اشارا مل چکا تھا کہ وہ سرزمینِ ہند کو اپنی تبلیغی و اشاعتی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں ۔

       چشت جس کی جانب اس سلسلہ کو منسوب کیا جاتا ہے وہ خراسان میں ہرات کے قریب ایک مشہور شہر ہے جہاںاللہ تعالیٰ کے کچھ نیک بندوں نے انسانوں کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لیے ایک بڑا مرکز قائم کیا ۔ ان حضرات کے طریقۂ تبلیغ اور رشد و ہدایت نے پوری دنیا میں شہرت و مقبولیت حاصل کرلی اور اسے اس شہر چشت کی نسبت سے ’’چشتیہ‘‘ کہاجانے لگا۔ چشت موجودہ جغرافیہ کے مطابق افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔
       سلسلۂ چشتیہ کے بانی حضرت ابو اسحاق شامی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔ سب سے پہلے لفظ ’’چشتی‘‘ ان ہی کے نام کا جز بنا، لیکن حضرت خواجہ معین الدین چشتی حسن سنجری رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت نے اس سلسلہ کے پرچم تلے دعوتِ حق کا جو کام انجام دیا اور آپ کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی اس سے لفظ’’ چشتی‘‘دنیا بھر میں بے پناہ مشہور و مقبول ہوا۔ طریقت کے دیگر سلاسل کی طرح یہ سلسلہ بھی حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے ملتا ہے ۔

       برصغیر ہند وپاک میں سلسلۂ چشت کے بانی حضرت خواجہ معین الدین  چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا شجرۂ بیعت و خلافت اس طرح ہے  :

(۱)سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری

(۲) حضرت خواجہ عثمان ہارونی

(۳) حضرت خواجہ حاجی شریف زندانی

(۴) حضرت خواجہ مودود چشتی

(۵)حضرت خواجہ ابویوسف چشتی

(۶) حضرت خواجہ ابو محمد بن ابی احمد چشتی

(۷) حضرت خواجہ ابو احمد ابدال چشتی

(۸)حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی چشتی

(۹) حضرت خواجہ ممشاد علی دینوری

(۱۰) حضرت خواجہ امین الدین ابو ہیبرہ بصری

(۱۱)حضرت خواجہ سدیدالدین حذیفہ مرعشی

(۱۲) حضرت خواجہ ابراہیم ادہم بلخی

(۱۳) حضرت خواجہ ابوالفیض فضیل بن عیاض

(۱۴) حضرت خواجہ ابوالفضل عبدالواحد بن زید

(۱۵)حضرت خواجہ حسن بصری       علیہم الرحمۃ

(۱۶)حضر ت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ

       ہندوستان میں چشتیہ سلسلہ کی بنیاد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوںسے رکھی گئی مگر ان سے پہلے خانوادۂ چشت کے جو صاحبِ کمال بزرگ ہندوستان تشریف لائے وہ خواجہ ابو محمد چشتی ہیں جس زمانہ میں سلطان محمود غزنوی نے سومنات پر چڑھائی کی خواجہ ابو محمد چشتی نے خواب میں دیکھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمارہے ہیں کہ : ’’اے ابومحمد ! تم کو سلطان مجاہد کی مدد کے لیے جانا چاہیے۔‘‘ چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر چند درویشوں کے ساتھ سومنات آگئے اور ستر سال کی عمر میں کفار و مشرکین کے مقابلہ میں شریکِ جہاد ہوئے ایک دن جنگ میں مشرکین غالب آگئے مسلمانوں نے راہِ فرار اختیار کی خواجہ ابو محمد چشتی نے یہ منظر دیکھا تو اپنے مریدِ خاص خواجہ محمد کاکو کو میدان سے آواز دی اے کاکوآگے بڑھ کاکو نے جھپٹ کر کفار پر حملہ کردیا اور اتنی بے جگری سے لڑا کہ مشرکین کو پسپا ہونا پڑا اور لشکرِ اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔

( نفحات الانس صفحہ ۵۶۰)

سوانح حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ  نام و نسب اور والدین

       سر زمینِ ہند میں سلسلۂ چشتیہ کے بانی اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سر خیل اور سالار حضرت خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کانام ’’معین الدین‘‘ ہے، والدین محبت سے آپ کو’’ حسن ‘‘کہہ کر پکارتے تھے،آپ حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلۂ نسب بارہویں پُشت میں حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے ۔
پدری سلسلۂ نسب : خواجہ معین الدین بن غیاث الدین بن کمال الدین بن احمد حسین بن نجم الدین طاہر بن عبدالعزیز بن ابراہیم بن امام علی رضا بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن محمد باقر بن امام علی زین العابدین بن سیدناامام حسین بن علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و رحمہم اللہ تعالیٰ۔
مادری سلسلۂ نسب: بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بنت سید داود بن سید عبداللہ حنبلی بن سید یحییٰ زاہد بن سید محمد روحی بن سید داود بن سید موسیٰ ثانی بن سید عبداللہ ثانی بن سید موسیٰ اخوند بن سید عبداللہ بن سید حسن مثنیٰ بن سیدنا امام حسن بن سیدنا علیِ مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین و ررحمہم اللہ تعالیٰ۔

       حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے والد حضرت خواجہ غیاث الدین حسن صاحب اپنے علاقہ کے دولت مند اور بااثر بزرگ تھے۔صبر و زہد اور تقویٰ و پرہیزگاری میں بھی آپ بہت ممتاز تھے۔ علمِ ظاہر و باطن سے آراستہ تھے۔ ملکِ سیستان کی تباہی و بربادی کے بعد آپ نے وہاں سے ہجرت کرکے خراسان میں قیام کیا ، جہاں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی پرورش و پرداخت ہوئی۔

       آپ کی والدہ ماجدہ بی بی ام الورع موسوم بہ بی بی ماہ نور بھی نہایت بلند کردار خاتون تھیں ۔ عبادت و ریاضت اور غربا و مساکین کی امداد واعانت آپ کے محبوب مشاغل میں سے تھا۔

ولادت اور مقامِ ولات

       حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ِ باسعات ۵۳۷ہجری بہ مطابق ۱۱۴۲عیسوی کو سجستان جسے’’ سیستان‘‘ بھی کہاجاتا ہے ، کے قصبۂ سنجر میں ہوئی۔ اسی لیے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کی ولادت پوری دنیا کے لیے باعثِ رحمت اور سعادت بنی۔ آپ نے اس دنیا میں عرفانِ خداوندی، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا کیا اور کفر و شرک کی گھٹا ٹوپ کو اسلام و ایمان کی روشنی سے جگمگادیا ۔ آپ کی والدہ ماجدہ بیان کرتی ہیں  :

       ’’ جب معین الدین میرے شکم (پیٹ) میں تھے تو میںاچھے خواب دیکھا کرتی تھی گھر میں خیر و برکت تھی ، دشمن دوست بن گئے تھے ۔ ولادت کے وقت سارا مکان انوارِالٰہی سے روشن تھا۔‘‘ ( مرأۃ الاسرار)

قابلِ رشک بچپن

       حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے تقوا و طہارت کے پیکر اور عبادت و ریاضت کے گوہر والدین کی گود میں تربیت پائی تھی۔آپ کی پرورش ایسے والدین نے کی تھی جو خود اپنے زمانے کے نیک اورصالح بزرگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ عام بچوں کی طرح کھیل کود، لہو و لعب اور بچپن کی دیگر عادتوں سے کوسوں دور تھے۔ آپ کی کشادہ پیشانی پر بچپن ہی سے جو انوارِ ربانی عیاں ہوتا تھا وہ اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ آپ ایک غیر معمولی شخصیت بننے والے ہیںاور آپ آگے چل کر فکر و عمل اور تقوا و پرہیزگاری کے روشن مینار ہوں گے جس کی روشنی میں لاکھوں افراد راہِ راست پر آئیں گے۔غرض یہ کہ آپ کا بچپن بھی قابلِ رشک تھا۔

        آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت خراسان میں ہوئی ، ابتدائی تعلیم والدِ گرامی کے زیرِ سایا ہوئی جو بہت بڑے عالم تھے۔ نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کرلیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہوکر تفسیر و حدیث اور فقہ(اسلامی قانون) کی تعلیم حاصل کی، خداداد ذہانت و ذکاوت،بلا کی قوتِ یادداشت اور غیر معمولی فہم وفراست کی وجہ انتہائی کم مدت میں بہت زیادہ علم حاصل کرلیا۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ گیارہ برس کی عمر تک نہایت ناز و نعم اور لاڈ پیار میں پروان چرھتے رہے۔

داغِ یتیمی

       جب حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو آپ کے والد حضرت غیاث الدین حسن صاحب علیہ الرحمہ کا سایۂ شفقت و محبت سر سے اُٹھ گیا۔ والد کا اس طرح داغِ مفارقت دے جانا آپ کے لیے گہرے رنج و غم اور دکھ درد کا باعث بنا ، لیکن باہمت والدۂ ماجدہ بی بی ماہ نور نے آپ کو باپ کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔

       والدِ گرامی کے اس دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد ترکہ میں ایک باغ اور ایک پن چکی ملی۔ جوانی کے عالم میں اسی ترکہ کو اپنے لیے ذریعۂ معاش بنایا خود ہی باغ کی دیکھ بھال کرتے اور اس کے درختوں کو پانی دیتے اور باغ کی صفائی ستھرائی کا بھی خود ہی خیال رکھتے۔ اسی طرح پن چکی کا سارانظام بھی خود سنبھالتے ، جس سے زندگی بڑی آسودہ اور خوش حال بسر ہورہی تھی ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانوں کی تعلیم و تربیت اور کائنات کے گلشن کی اصلاح و تذکیر کے لیے منتخب فرمالیا تھا ۔ لہٰذا آپ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے آپ نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور طریقت و سلوک کے مراتب طَے کرتے ہوئے وہ مقامِ بلندحاصل کیا کہ آج بھی آپ کی روحانیت کو ایک جہان تسلیم کررہا ہے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا وہ واقعہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیے جس نے آپ کی دنیا بدل دی ۔

مجذوبِ وقت ابراہیم قندوزی کی آمد اور  حضرت خواجہ کا ترکِ دنیا کرنا

       حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے شب و روز گذرتے رہے ۔ عالمِ اسلام میں تاتاریوں کے ظلم و ستم کی آندھیاں چلنے لگیں ، جس سے پوری امتِ مسلمہ کاامن و سکون درہم برہم ہوگیا ۔تاتاریوںکے ہاتھوں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی بربادی روزمرہ کے معمول بن گئے ۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ان ناگفتہ بہ حالات سے بے خبر نہ رہے اور خاموشی کے ساتھ ان بربادیوں اور تباہیوں کا جائزہ لیتے رہے آپ کے نیک اورصالح دل و دماغ پر دنیا کی بے رغبتی نقش ہوتی گئی اور امیروں اور دنیا داروں سے راہ و رسم کی بجاے فقیروں اور درویشوں کی صحبت اور خدمت کا شوق و ذوق پروان چڑھنا شروع ہوا۔ ایک دن ترکے میں ملے ہوئے باغ میں آپ درختوں کو پانی دے رہے تھے کہ اس بستی کے ایک مجذوب ابراہیم قندوزی اشارۂ غیبی پر باغ میںتشریف لائے ۔ جب حضرت خواجہ کی نظر اِس صاحبِ باطن مجذوب پر پڑی تو ادب و احترام کے ساتھ ان کے قریب گئے اور ایک سایا دار درخت کے نیچے آپ کو بٹھا دیااور تازہ انگور کا ایک خوشہ سامنے لاکر رکھ دیا ، خود دوزانو ہوکر بیٹھ گئے ۔ حضرت ابراہیم قندوزی نے انگور کھائے اور خوش ہوکر بغل سے روٹی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اپنے منہ میں ڈالا دانتوں سے چبا کر حضرت خواجہ غریب نواز کے منہ میں ڈال دیا اس طرح حق و صداقت اور عرفانِ خداوندی کے طالبِ حقیقی کو ان لذّتوں سے فیض یاب کردیا ۔ روٹی کا حلق میں اترنا تھا کہ دل کی دنیا بدل گئی ۔روح کی گہرائیوں میں انورِ الٰہی کی روشنی پھوٹ پڑی ، جتنے بھی شکوک و شبہات تھے سب کے سب اک آن میں ختم ہوگئے ،دنیا سے نفرت اور بے زاری پیدا ہوگئی اور آپ نے دنیاوی محبت کے سارے امور سے کنارہ کشی اختیار کرلی، باغ، پن چکی اور دوسرے ساز و سامان کو بیچ ڈالا، ساری قیمت فقیروں اور مسکینوں میں بانٹ دی اور طالبِ حق بن کر وطن کو چھوڑ دیااور سیر و سیاحت شروع کردی ۔

علمِ شریعت کا حصول

       زمانۂ قدیم سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ علمِ طریقت کی تحصیل کے خواہش مند پہلے علمِ شریعت کو حاصل کرکے اس میں کمال پیداکرتے ہوئے عمل کی دشوار گزار وادی میں دیوانہ وار اور مستانہ وار چلتے رہتے ہیں اور بعد میں علمِ طریقت کا حصول کرتے ہیں ۔ چناں چہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا اور وطن سے نکل کر سمرقند و بخارا کا رخ کیا جو کہ اس وقت پورے عالمِ اسلام میں علم و فن کے مراکز کے طور پر جانے جاتے تھے جہاں بڑی بڑی علمی ودینی درس گاہیں تھیں جن میں اپنے زمانے کے ممتاز اور جید اساتذۂ کرام درس و تدریس کے فرائض انجام دیا کرتے تھے ۔ ان درس گاہوں میں دنیا بھر سے علمِ دین کی طلب رکھنے والے افراد کھنچ کھنچ کر آتے اور اپنی تشنگی کو بجھاتے تھے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں آکر پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ طلبِ علم میں مصروف ہوگئے ۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام اور دیگر ضروری علوم کا درس لیا اور کامل مہارت حاصل کرلی ، آپ کے اساتذہ میں نمایاں طور پر مولانا حسام الدین بخاری اور مولانا شرف الدین صاحب شرع الاسلام کے نام لیے جاتے ہیں۔

پیرِ کامل کی تلاش

       سمر قند اور بخارا کی ممتاز درس گاہوں میں جید اساتذۂ کرام کے زیرِسایا رہ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے علومِ شریعت کی تکمیل کرنے کے بعد روحانی علوم کی تحصیل کے لیے اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ اس زمانے میں علمِ طریقت کے مراکز کے طور پر پوری دنیاے اسلام میں عراق و حجازِ مقدس مشہور و معروف تھے، جہاں صالحین اور صوفیاے کاملین کی ایک کثیر تعداد بادۂ وحدت اور روحانیت و معرفت کے پیاسوں کی سیرابی کا کام کررہی تھی۔

       حضرت خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کائناتِ ارضی میں اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مختلف اشیاکا مشاہدہ و تفکراور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں اولیا و علما اور صلحا و صوفیہ کی زیارت کرتے ہوئے بغداد، مکہ اورمدینہ کی سیر و سیاحت اور زیارت کی سعادتیں حاصل کیں۔پھر پیرِ کامل کی تلاش و جستجو میں مشرق کی سمت کا رُخ کیا اورعلاقۂ نیشاپور کے قصبۂ ہارون پہنچے جہاں ہادیِ طریقت حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں روحانی وعرفانی مجلسیں آراستہ ہوتی تھیں ۔ خانقاہِ عثمانی میں پہنچ کر حضرت خواجہ غریب نوا رحمۃ اللہ علیہ کو منزلِ مقصود حاصل ہوگئی اور آپ مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوگئے اور ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت کی ۔

      حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیعت کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے :

       ’’ایسی صحبت میں جس میں بڑے بڑے معظم و محترم مشائخِ کبار جمع تھے میں ادب سے حاضر ہو ا اور روے نیاز زمین پر رکھ دیا ، حضرت مرشد نے فرمایا: دورکعت نماز ادا کر ، میں نے فوراً تکمیل کی ۔ رو بہ قبلہ بیٹھ ، میں ادب سے قبلہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہوا سورۂ بقرہ پڑھ ، میں نے خلوص و عقیدت سے پوری سورت پڑھی ، تب فرمایا : ساٹھ بار کلمۂ سبحان اللہ کہو، میں نے اس کی بھی تعمیل کی ، ان مدارج کے بعد حضرت مرشد قبلہ خود کھڑے ہوئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا آسمان کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور فرمایا میں نے تجھے خدا تک پہنچا دیاان جملہ امور کے بعد حضرت مرشد قبلہ نے ایک خاص وضع کی ترکی ٹوپی جو کلاہِ چارتَرکی کہلاتی ہے میرے سر پر رکھی ، اپنی خاص کملی مجھے اوڑھائی اور فرمایا بیٹھ میں فوراً بیٹھ گیا ، اب ارشاد ہوا ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ میں اس کو بھی ختم کرچکا تو فرمایا ہمارے مشائخ کے طبقات میں بس یہی ایک شب و روز کا مجاہدہ ہے لہٰذا جا اور کامل ایک شب و روز کا مجاہدہ کر، اس حکم کے بہ موجب میں نے پورا دن اور رات عبادتِ الٰہی اور نماز و طاعت میں بسر کی دوسرے دن حاضر ہوکے ، روے نیاز زمین پر رکھا تو ارشاد ہوا بیٹھ جا، میں بیٹھ گیا، پھر ارشاد ہو ا اوپر دیکھ میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو دریافت فرمایا کہاں تک دیکھتا ہے ، عرض کیا عرشِ معلا تک ، تب ارشاد ہوا نیچے دیکھ میں نے آنکھیں زمین کی طرف پھیری تو پھر وہی سوال کیا کہاں تک دیکھتا ہے عرض کیا تحت الثریٰ تک حکم ہوا پھر ہزار بار سورۂ اخلاص پڑھ اور جب اس حکم کی بھی تعمیل ہو چکی تو ارشاد ہو اکہ آسمان کی طرف دیکھ اور بتا کہاں تک دیکھتا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا حجابِ عظمت تک ، اب فرمایا آنکھیں بند کر ، میں نے بند کرلی ، ارشاد فرمایا ا ب کھول دے میں نے کھل دی تب حضرت نے اپنی دونوں انگلیاں میری نظر کے سامنے کی اور پوچھا کیا دیکھتا ہے ؟ عرض کیا اٹھارہ ہزار عالم دیکھ رہا ہوں ، جب میری زبان سے یہ کلمہ سنا تو ارشاد فرمایا بس تیرا کام پورا ہوگیا پھر ایک اینٹ کی طرف دیکھ کر فرمایا اسے اٹھا میں نے اٹھایا تو اس کے نیچے سے کچھ دینار نکلے ، فرمایا انھیں لے جاکے درویشوں میں خیرات کر۔ چناں چہ میں نے ایسا ہی کیا ۔ ‘‘

(انیس الارواح }ملفوظاتِ خواجہ{صفحہ ۱/ ۲ )

       حضرت خواجہ عثمان ہارونی جیسے مرشدِ کامل کی ایک نظر نے حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کو ایک لمحے میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور آپ کو علمِ طریقت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بنادیا ۔ ایسے مرشدِ کامل اور پیرِ طریقت کے مختصر احوال و کوائف بھی ذیل میں ملاحظہ کرتے چلیں ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرشدِ کامل   قطبِ ارشادحضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی رحمۃ اللہ علیہ
  
     حضرت خواجہ غریب نواز کے مرشدِ کامل قطبِ ارشاد حضرت خواجہ عثمان ہارونی چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت نیشاپور کے قریب علاقۂ خراسان کے ہارون میں ہوئی ۔ تذکرہ نگاروں نے سالِ ولادت میں اختلاف کیا ہے ، اکثر مورخین نے آپ کی ولادت کا سن ۵۳۶ ہجری / ۱۱۴۱عیسوی تحریر کیا ہے ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

       آپ کا خاندا ن بہت زیادہ باعزت اور با عظمت تھا ، علم و فضل اور زہد و تقوا کے اعتبار سے آپ کے گھرانے کو بے حد مقبولیت حاصل تھی ۔ آپ کے والد بہت بڑے عالمِ باعمل تھے۔ اس لیے آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی اور قرآنِ پاک حفظ کیا تلاوت سے آپ کو بے انتہا لگاو تھا۔ نیشاپور اس زمانہ میں علم و فضل کا عظیم مرکز تھا اس لیے اعلا تعلیم کے لیے اسی شہر میں قیام کیا ، حدیث ، فقہ ، تفسیر اور دیگر علوم کو شوق و ذوق سے حاصل کیا اور ان علوم میں مہارت پیدا کی ۔ جلد ہی آپ کا شمار اس زمانے کے جید اور ممتاز علما میں ہونے لگا ۔ علومِ شریعت کی تحصیل و تکمیل کے بعد آپ نے علومِ طریقت کے حصول کا ارداہ کیا اور راہِ طریقت میں رہِ نمائی کے لیے کسی درویشِ کامل اور پیرِ طریقت کی تلاش شروع کردی ۔ اسی دوران اتفاق سے ایک روز ایک صاحبِ باطن مجذوب سے ملاقات ہوگئی ، ان کی نگاہوں نے آپ کے قلب و روح پر وہ اثر ڈالا کہ دل کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوگیا ۔ آپ نے دنیا سے رشتہ منقطع کرلیا ۔ آرام و راحت ہمیشہ کے لیے ترک کردیا اور کسی شیخِ کامل کی جستجو میں اس زمانے کے مشہور و معروف اسلامی شہروں کا رخ کیا اور اولیا و علما سے ملاقاتیں کیں ان سے روحانی فیوض حاصل کیے اور ان کی ہدایات اور پند و نصائح پر عمل کرتے رہے ۔

       آخر کار اللہ تعالیٰ نے سچے پیر کی سچی طلب کے لیے سرگرداں طالبِ حق کو راستہ دکھادیا اور آپ کی ملاقات حضرت خواجہ حاجی شریف زندانی چشتی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت ۴۹۲ہجری / ۱۰۹۸عیسوی ، وفات ۶۱۲ ہجری / ۱۲۱۵ عیسوی ) سے ہوئی جن کے کشف و کرامات، زہد و تقوا اور استقامت علی الدین کا چرچا اس زمانے میں دو دور تک پھیلا ہوا تھا۔ جنھیں خواجۂ بزرگ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔

       حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجۂ بزرگ کی خدمت میں پہنچ کر ان کے مبارک ہاتھوں پر بیعت ہوئے اور ان کی رہبری میں سلوک و معرفت کی منزلیں طَے کرنے لگے ۔ جب ریاضت و مجاہدہ اور عبادت و نفس کشی کرتے ہوئے آپ کی شخصیت کندن بن گئی اور آپ بھی ایک مردِ کامل کی حیثیت اختیار کرگئے تو مرشدِ باصفا نے آپ کواپنی خلافت و اجازت سے نوازدیا ۔
       پیرِ کامل نے جب خلافت سے نوازا تو کلاہِ چار ترکی آپ کے سر پر رکھی اور فرمایا چار تَرکی سے مراد چارتَرک ، (۱) تَرکِ دنیا، (۲) تَرکِ عقبیٰ یعنی تیرا مقصد ذاتِ الٰہی کے سوا کوئی اور نہ ہو (۳) تَرکِ خورد و خواب (کھانا اور سونا چھوڑنا) مگر سدِ رمق (سانس چلنے کے لیے) اس کی ضرورت ہے (۴) تَرکِ خواہشِ نفس یعنی نفس جس بات کا مطالبہ کرے اس کے خلاف کرو جو یہ چاروں تَرک کرے کلاہِ چار تَرکی پہننے کا مستحق ہے۔(خزینۃ الاصفیاء جلد ۱ صفحہ ۲۵۴)
       حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کو جب پیر ومرشد سے خلافت و اجازت حاصل ہوگئی تو آپ نے اسلامی ممالک کی سیر و سیاحت شروع کی اس دوران کبھی بھی ذکر و فکر ، ریاضت و مجاہدہ اور تبلیغِ دین سے غفلت نہیں برتی۔مختلف کتب میں منقول ہے کہ ستر سال تک آپ نے سخت ریاضت و مجاہدہ کیا اور اس عرصہ میں کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانانہیں کھایا اور نہ ہی سیر ہوکر کبھی پانی نوش کیا ۔

کرامات

      حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ ولایت کے اس بلند مقام پر فائز تھے کہ آپ کی دعائیں کبھی رد نہ ہوتیں ۔ آپ سے بے شمار کرامتیں صادر ہوئیں اور آپ کے درس و تدریس ، وعظ و نصیحت اور اصلاح و تذکیر سے ہزاروں بے دینوں اور ملحدوں کو دینِ اسلام کی دولت نصیب ہوئی اور لاکھوں گم کردہ راہ مسلمانوں نے ہدایت پائی ۔ حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی تربیت سے بے شمار حضرات کو مرتبۂ ولایت بھی حاصل ہوا ۔ آپ کی کرامتو ں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے ۔
٭ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر ایک دن میںمرشدِ کامل  حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ کے ساتھ ایک ایسے دریا پر پہنچا جس پر نہ تو پُل تھااور نہ ہی کشتی… حتیٰ کہ دوسری طرف جانے کا کوئی سامان نہیں تھا ، مرشدِ بر حق نے مجھ سے فرمایا آنکھ بند کرلو تھوڑی دیر بعد فرمایا آنکھ کھول دو جب میں نے آنکھ کھولی دیکھا کہ ہم دونوں دریا کے دوسرے کنارے پر کھڑے ہیں یہ پتا بھی نہ چل سکا کہ دریا سے ہما راگذر کس طرح ہوا۔

٭ آپ کی مجلس میں ایک شخص آیااور کہا کہ چالیس سال سے میرا لڑکا غائب ہے اور اس کی کچھ خبر نہیں کہ وہ کہاں ہے اس بارے میں توجہ فرمائیں حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے مراقبہ میں سر جھکا لیا اور تھوڑی دیر بعد فرمایا تیرا لڑکا مکان پر آچکا ہے ۔جب وہ شخص گھر پہنچا تو لڑکے کو موجود پایا فوراً ہی اپنے لڑکے کو لے کر حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوااور شکریہ اداکیا۔
   
    حاضرین نے اس لڑکے سے ماجرا پوچھا تو اس نے کہا کہ میں ایک جزیرہ میں شیطانوں کی قید میں تھا آج ایک بزرگ جن کی صورت (حضرت کی طرف اشارا کرکے کہاکہ) بالکل حضرت خواجہ کی ہے میرے پاس آئے اور فرمایا اٹھ اور میرے پیر پر پیر اکھ اور آنکھ بند کرلے میں نے ایسا ہی کیا جب آنکھ کھلی تو خود کو اپنے مکان پر پایا۔

(سیر الاولیاء ص ۵۴)

٭ ایک مرتبہ ایک مقام پر ستر جاہلوں کی ایک مجلس گرم تھی اورآدھی رات گذر گئی وہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی کرامتوں کا ذکر چھڑ گیا انھوں نے کہا ہم اس وقت خواجہ کے پاس چلیں اور ان کی آزمایش کریں اگر خاطر خواہ کرامت ظاہر ہوگئی تو ہم سب ان کے مرید ہوجائیں گے۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے ذہن میں علاحدہ علاحدہ ایسے کھانے کا تصور کیا جو اس وقت میسر آنا مشکل تھا ، پھر حضرت کی خانقاہ میں حاضر ہوئے خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ نے ان لوگوں کو دیکھتے ہی فرمایا واللہ یہدی من یشآء الیٰ صراطٍ مستقیم اور ان سب کو اپنے روبہ رو بٹھایا پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے فوراً ہی ایک دسترخوان غیب سے ظاہر ہوا جس میں ستر مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ حضرت نے ہر ایک کی خواہش کے مطابق جداجدا کھانے بانٹے ۔ جب ان جاہلوں نے آپ کی یہ روشن کرامت دیکھی تو دل و جان سے مرید ہوگئے اور ظاہری و باطنی کمالات سے بہرہ ور ہوئے۔

(خزینۃ الاصفیا ص ۲۵۶)
  
     حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی عمر کا ایک بڑا حصہ ولایت کی تکمیل، اللہ عزوجل کی بنائی ہوئی کائنات کے مشاہد ہ و مطالعہ اور علمِ شریعت و طریقت کی تحصیل کے لیے سفر میں گذرا اور ان اسفار میں آپ نے اپنے چہیتے اور لاڈلے خلیفہ و شاگرد حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ساتھ میں رکھا ۔ حضرت خواجہ غریب نواز کے اجمیر روانہ ہونے سے پہلے سلطان شمس الدین التمش کے عہدِ حکومت میں حضرت خواجہ عثمان ہارونی دہلی آئے یہاں حضرت خواجہ غریب نواز بھی تھے آپ نے مرشد کی بہت خدمت کی ۔ سلطان شمس الدین التمش جس کو بزرگانِ دین سے بے حد محبت تھی اس نے بھی خواجہ ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی بہت زیادہ عزت کی ۔
       حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے خواجہ غریب نواز کو حکم دیا کہ سلطان شمس الدین التمش کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک کتاب لکھو ۔ چناں چہ آپ نے ’’گنجِ اسرار ‘‘ نامی کتاب لکھی۔

       حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفامیں چار بہت مشہور ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔ (۱) خواجہ معین الدین چشتی (۲) خواج نجم الدین صغرا(۳) خواجہ سعدی (۴) خواجہ محمد ترک علیہم الرحمہ۔
       حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ یہ دعاکرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انھیں مکۂ معظمہ کی خاک میں دفن ہونے کی سعادت عطا کرے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس برگزیدہ بندے کی دعا سُن لی اور آپ کا وفات ۵؍ شوال المکرم۶۱۷ھ / ۱۲۲۰ء کو مکۂ مکرمہ میں ہوا ۔ جنت المعلا کے قریب آ پ کو دفن کیا گیا۔

حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوالِ زریں

      حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات اور ان کے اقوال پر مبنی ایک کتاب ’’انیس الارواح ‘‘ نام کی حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ۔ اس کتاب میں خواجہ غریب نواز نے اپنے پیر و مرشد کے جو اقوال اور ارشادات جمع کیے ہیں وہ سب قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں ۔ ذیل میں چند ایک اقوالِ زریں پیش کیے جاتے ہیں۔

٭ افضل ترین زہد موت کو یاد کرنا ہے۔

٭ نمازاور شریعت کے فرائض کا منکر کافر ہے۔

٭ صدقہ دینا ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے۔

٭ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاسمر قند میں شیخ عبدالواحد سمر قندی سے میں نے سناایمان میں کچھ مزہ نہیں تا وقت یہ کہ شب و روز قیام نہ کیا جائے پس جو شخص یہ کام کرتا وہ ایمان کا لطف پاتا ہے۔

٭ عالموں کا حسد اچھا نہیں خصوصاً مسلمان کے لیے بعض علما نے فرمایا حسد دل سے نکال دینا چاہیے جب حسد دل سے نکال دیں گے تو جنت میں جائیں گے۔

٭ مومن و ہ شخص ہے جو تین چیزوں کو دوست رکھتا ہے … (۱) موت (۲) درویشی (۳)دعا۔ جوان تین چیزوں کو دوست رکھتا ہے فرشتے اسے دوست رکھتے ہیں ۔

٭ اللہ تعالیٰ اس مومن سے خوش ہوتا ہے جو کسی مومن کی ضرورت کو پورا کرے اس کا مقام بہشت ہے۔

٭جو شخص مومن کی عزت و توقیر کرتا ہے اس کی جگہ بہشت میں ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف فرمادیتا ہے۔

٭ مومن کو گالی دینا اپنی ماں بہن سے زنا کرنا ہے ایسے شخص کی دعا سو دن تک قبول نہیں ہوتی اگر کوئی اوراد و وظائف میں مشغول ہو اور کوئی حاجت مند آجائے تو لازم ہے کہ وہ اوراد و ظائف کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہو اور اپنے مقدور کے مطابق اس کی حاجت پوری کرے۔

٭ خداے تعالیٰ کے ایسے دوست ہیں کہ وہ دنیا میں ایک لمحہ کے لیے بھی اس سے غافل ہوجائیں تو ان کی ہستی مٹ جائے۔

       حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کرتے ہوئے یہاںدرمیان میں آپ کے پیر ومرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصرتذکرۂ خیر اس لیے کردیا گیا کہ ہم چلتے چلتے آپ کے پیرِ کامل کے بارے میں بھی سرسری معلومات حاصل کرلیں ۔ اب آئیے ہم دوبارہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر کی طرف بڑھتے ہیں۔

حضرت خواجہ کی عبادت و ریاضت اور مجاہدات

       حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ جیسے شیخِ کامل نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کوعطاے خداوندی سے ایک نظر میں ایسا بلند و بالا مقام عطا فرمادیا جوایک لمبے عرصہ تک دیگر لوگوں کو عبادت و ریاضت اور مجاہدات کے بعد بھی نہیں مل پاتا۔

       پیر و مرشد سے مرید ہونے کے بعدحضرت خواجہ معین الدین چشتی نے ڈھائی سال تک  تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کے لیے اپنے آپ کو بہت سخت عبادت و ریاضت اور مجاہدات سے گذارا۔ حضرت خواجہ کے خلیفہ و جانشین حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں اس طرح روشنی ڈالتے ہیں:

       ’’خواجۂ بزرگ نے بڑے مجاہدات کیے آپ سات شبانہ روز بعد افطار کرتے اور پانچ مثقال وزن کی روٹی پانی میں بھگو کر تناول فرماتے ۔ آپ کا لباس دو چادریں تھیں جن میں پیوند لگے رہتے پیوند لگانے کے لیے جس قسم کا کپڑا مل جاتا اسی سے سی لیتے ۔‘‘

( مرأۃ الاسرار ص ۹۹۵)
  
     حضرت خواجہ غریب نواز کو اپنے پیر ومرشد سے بے پناہ محبت اور الفت تھی ۔ یہی نہیں بل کہ آپ کے پیر ومرشد بھی آپ سے بہت زیادہ انسیت اور مشفقانہ برتاو کرتے تھے۔ حضرت خواجہ اپنے مرشد کی خدمت اور ان سے فیض حاصل کرنے میں دوسرے مریدوں کی نسبت زیادہ توجہ دیا کرتے آپ کے مرشدِ گرامی حضرت خواجہ عثمان ہارونی جہاں بھی جاتے آپ ان کے ساتھ ساتھ جاتے ان کا بستر ، توشہ اور دوسرے ساز و سامان عقیدت سے اپنے سر پر لادے ہوئے چلتے تھے۔ حضرت خواجہ نے مکمل بیس سال تک اپنے مرشدِ گرامی کی خدمت میں بسر کیے۔ اس طویل مدت میں آپ نے دنیا بھر کے مختلف ایسے علاقوں کی سیر و سیاحت بھی کی جو اس زمانے میں اسلامی علوم و فنون کے مرکز اور علما و اولیا او رصوفیہ و مشائخ کے مسکن تھے۔ جن میں سیستان ، دمشق، اوش ، بدخشاں بغداد، مکۂ معظمہ ، مدینۂ منورہ اور دیگر شہر شامل ہیں ۔ ان شہروں میں پہنچ کر حضرت خواجہ نے وہاں کے علما و مشائخ سے علوم و فنون کی تحصیل کی اور بہت سارے اللہ کے نیک بندوں اور اولیاے کاملین سے ملاقاتیں بھی کیں۔اس دوران آپ کی سب سے پہلی منزل سنجان تھی جہاں آپ نے حضرت نجم الدین کبرا رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کی۔ وہاں سے بغداد روانہ ہوئے ، جہاں پر کوہِ جودی میں بڑے پیرحضرت شیخ سیدنا عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور آپ کے ساتھ پانچ ماہ سات دن ایک ہی حجرے میں رہ کر خوب خوب روحانی و عرفانی علوم و فنون سے بہرہ ور ہوئے۔ وہاں سے فارغ ہوکر حضرت غوث پاک ہی کے ہمراہ جیلان اور بغداد کی سیر و سیاحت کی اور وہاں کے بڑے بڑے بزرگوں اور صالحین سے ملاقات اور فیض حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کے نیک اور پاک باز بندوں سے ملاقات کے دوران بہت سارے عجیب و غریب اور سبق آموز واقعات رونما ہوئے ۔ جن میں سے چند ایک ذیل میں نقل کیے جاتے ہیں ، جنھیں خود حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ہی بیان فرمائے ہیں ۔

٭___  ایک بارمیں اور حضرت شیخ اوحد الدین کرمانی کرمان کی سیر کررہے تھے ، وہاں ہم نے ایک بوڑھے درویش کودیکھاجو بہت زیادہ بزرگ اوراللہ عزوجل کی یاد میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے اسے سلام کیا، معلوم ہوا کہ گویا اس کے جسم میں گوشت اور ہڈیوں کا نام و نشان نہیں ہے بل کہ صرف روح ہی روح ہے۔ وہ بزرگ بہت ہی کم گو تھے ، میرے دل میں خیال آیا کہ اس بزرگ سے اس کے حالات پوچھوں کہ آپ اس قدر کم زور اور لاغر کیوں ہوگئے ہیں؟ اس روشن ضمیر درویش نے میرا ارادہ بھانپ لیا اور میرے پوچھنے سے پہلے ہی اس نے فرمایا:’’ اے درویش ایک دن میں اپنے دوست کے ساتھ ایک قبرستان سے گذرا ایک قبر کے پاس ہم تھوڑی دیر رکے اتفاق سے مجھے کسی بات پر ہنسی آگئی اور میں قہقہہ مار مار کر ہنسنے لگا۔ قبر سے آواز آئی ، اے غافل انسان ! جسے قبر جیسے مقام میں جانا ہے، اور ملک الموت جس کے حریف ہیں اور زمین کے نیچے جس کے غم خوار سانپ اور بچھو ہیں اسے ہنسی سے کیا تعلق؟ یہ درد بھرتی اور عبرت آموز آواز سن کر میں نے میرے دوست کا ہاتھ چھوڑا اور اس سے رخصت ہوکر نماز میں مصروف ہوگیا۔ اس غیبی آواز نے میرے دل میں قبر کی جو مصیبت گھر کردی ہے اس کے سبب میرا بدن پگھلنے لگا، اس واقعہ کو ہوئے چالیس سال کی مدت گذر گئی ہے میں نے شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے نہ تو آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی ہے اور نہ ہی اس عرصہ میں مسکرایا ہوں ۔ ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن خداے قدیر و جبار کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘۔

٭___  فرماتے ہیں : مَیں سیوستان میں مرشدِ گرامی حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سفر کررہاتھا ، ایک عبادت خانے میںایک درویش شیخ صدرالدین محمد احمد سیوستانی کی زیارت ہوئی جو بڑے بزرگ تھے، ہر لمحہ یادِ الٰہی میں ڈوبے رہتے میںنے آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے چند دن ان کے پاس قیام کیا ۔ جو بھی آپ کی خدمت میں آتا اسے آپ خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے بل کہ عالمِ غیب سے کچھ نہ کچھ ضرور دے کر رخصت فرماتے اور کہتے کہ اس فقیر کے لیے ایمان کی سلامتی کی دعا کرو اگر میں قبر میں ایمان سلامت لے گیا تو میں نے بہت بڑا کام کیا۔

       مَیں نے دیکھا کہ جب جب ان کے سامنے قبر کے حالات اور واقعات کا تذکرہ چھڑ جاتا وہ بید کی طرح کانپنے لگتے اور ان کی آنکھوں سے خون جاری ہوجاتا ایسا محسوس ہوتا کہ پانی کا چشمہ ابل رہا ہے، وہ سات سات دن تک مسلسل روتے رہتے ان کا رونا دیکھ کر ہم حاضرین پر بھی ایک رقت آمیز کیفیت طاری ہوجاتی ، جب رونے سے فارغ ہوتے تو بیٹھ کر ہم سے فرماتے کہ :’’ اے عزیزو! جسے موت آنی ہے اور جس کا حریف ملک الموت ہے اور قیامت جیسا سخت دن اسے درپیش ہے اس کو کھانے پینے سونے ہنسنے اور مذاق سے کیا علاقہ اسے اللہ کی عبادت کے سوا دوسرے کاموں میں مصروف ہونا کیسے بھاتا ہے؟‘‘

       پھرفرمایا:’’ اے عزیزو! اگر تم کو مردوں کا حال جو سانپوں اور بچھووں کے گھیرے میں ہیں اور قبر ان کا قید خانہ ہے ان کی کیفیت ذرّ ہ برابر بھی معلوم ہوجائے تو تم نمک کی طرح پگھل کر نمک ہوجاؤ گے۔ ‘‘
       پھر فرمایا:’’ایک بار میں ایک بزرگ کے ساتھ بصر ہ کے ایک قبرستان میں بیٹھا ہوا تھا پاس ہی ایک قبر میں ایک مردے پرعذاب ہورہا تھااس بزرگ نے کشف کے ذریعہ جب یہ حال معلوم کیا تو زور سے چیخ مارکر زمین پر گر پڑے میں نے ان کو اٹھانا چاہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ان کی روح جسم سے جدا ہوگئی ہے ، یہاں تک کہ کچھ ہی دیر میں ان کا سارا جسم پانی بن کر بہہ گیا اسی روز سے مجھ پر قبر ی بڑی ہیبت طاری رہتی ہے ۔ اس لیے تمہیں جاننا چاہیے کہ تم لوگ دنیا سے دل نہ لگاؤ کہ کہیں دنیا کی مشغولیت تمہیں یادِ الٰہی سے غافل کردے ۔ کیوں کہ جس قدر لوگ مخلوق میں مشغول ہوتے ہیں اسی قدر خالق سے دور ہوجاتے ہیں ، پس آخرت کی تیاری کرو،کہ ہم سب کو ایک دن اس فانی دنیا سے رخصت ہونا ہے ممکن ہے ہم ایمان سلامت لے جائیں ، اتنا کہہ کر اپنے پاس سے دوکھجوریں مجھے عنایت کیں اور خود اٹھ کر گریہ و زاری میں مصروف ہوگئے ۔

( دلیل العارفین ص ۱۴/ ۱۶)

٭ ___  حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں کہ جب میں بدخشاں پہنچا تووہاں اللہ کے ایک بندے کو دیکھا جن کی عمر سوسال تھی ۔ان کا ایک پاوں کٹا ہوا تھا، جب میں نے ان سے پاوں کٹنے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:’’ ایک مرتبہ میں نے اپنے نفس کی خواہش پرایک قدم صومعہ سے نکالا ہی تھا کہ غیب سے آواز آئی کہ اے مدعی! کیا یہی عہدو پیمان تھا جسے تو نے توڑ دیا ، یہ سنتے ہیں میں نے اپنا وہ پاوں کاٹ کر پھینک دیا، اس واقعہ کو چالیس سال گذر چکے ہیں اور میں فکر مند ہوں کہ میں نہیں جانتا کہ کل قیامت کے دن میں اپنا یہ منہ کس طرح دکھاؤں گا۔‘‘

(انیس الارواح ص ۳)

٭ ___اسی طرح جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مرشدِ کامل حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ حرمین شریفین کی زیارت کے لیے پہنچے تو کعبہ شریف میں مرشدِ کامل نے اپنے اس لاڈلے اور چہیتے مرید کے لیے میزابِ رحمت کے نیچے خصوصی دعا کی اور ان کاہاتھ پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا ، غیب سے ندا آئی کہ:’’ ہم نے معین الدین کو قبول کیا۔‘‘ یہ جواب سن کر شیخِ کامل بہت خوش ہوئے اور بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لایا۔ حج سے فارغ ہونے کے بعد مدینۂ منورہ میں روضۂ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے۔یہاں پہنچ کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے سلام پیش کیا تو مزارِ پاک سے جواب ملا :

’’ وعلیک السلام اے سمندر اور جنگلوں کے قطب المشائخ !‘‘
       بارگاہِ نبی  ﷺسے جب یہ آواز آئی تو مرشدِ کامل نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی خلافت و جانشینی

       جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو آپ کے پیر ومرشد نے ولایت اور روحانیت کے تمام علوم و فنون سے آراستہ کرکے مرتبۂ قطبیت پر فائز کردیا تو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حج کے بعدحضرت خواجہ کو قبولیت کی سند مل گئی۔ اس واقعہ کے بعد پیرو مرشد نے فرمایا کہ اب کام مکمل ہوگیا ، چناں چہ اس کے بعدبغداد میں ۵۸۲ھ / ۱۱۸۶ء کوحضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اپنا نائب اور جانشین بنادیا ۔ اس ضمن میں خود حضرت مرشدِ کامل نے یوں اظہارِ خیال فرمایا ہے :

’’معین الدین محبوبِ خدا ہے اور مجھے اس کی خلافت پر ناز ہے۔‘‘

      حضرت خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنی خلافت و اجازت سے نوازا اور اپنا جانشین اور نائب قرار دیا، اور رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام ترتبرکات جو خاندانِ چشتیہ میں نسلاً بعدِ نسلٍ چلے آرہے تھے انھیں پیر ومرشد نے اپنے مریدِ صادق حضرت خواجہ کو عنایت فرمادیا، اس تعلق سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے جو بیان کیا اسے حضرت قطب الدین بختیار کاکی نے حضرت خواجہ کے ملفوظات میں یوںقلم بند کیا ہے:

       ’’ حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے فرمایا، اے معین الدین ! میں نے یہ سب کام تیری تکمیل کے لیے کیا ہے ، تجھ کو اس پر عمل کرنالازم ہے۔ سچا مرید وہی ہے جو اپنے ہوش گوش میں اپنے پیر و مرشد کے ارشادات کو جگہ دے اپنے شجرے میں ان کو لکھے اور انجام کو پہنچائے تاکہ کل قیامت کے دن شرمندگی نہ ہو اس ارشاد کے بعد عصاے مبارک جو مرشد کے سامنے رکھا تھا دعا گو کو عطا فرمایا، بعد ازاں خرقہ ، چوبی نعلین  (کھڑاوں)اور مصلا بھی عنایت فرما کر سرفراز کیا ، پھر ارشاد فرمایا یہ تبرکات ہمارے پیرِ طریقت قدس اللہ سرہٗ کی یادگار ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچے ہیں اور ہم نے تجھے دیے ہیں ان کو اس طرح اپنے پاس رکھنا جس طرح ہم نے رکھا جس کو مرد پانا اسی کو ہماری یہ یادگاردینا۔ خلق سے لالچ نہ رکھنا ، آبادی سے دور ، مخلوق سے کنارا کش رہنا اور کسی سے کچھ طلب نہ کرنا ۔ یہ ارشاد فرمانے کے بعد پیرو مرشد نے مجھے اپنے سینے سے لگایا سر اور آنکھ کو بوسہ دیا اور فرمایا تجھ کو خداوندِ تعالیٰ کے سپرد کیا ۔‘‘

(انیس الارواح ص ۳۴/ ۳۵)

IS POST KE DUSRE PAGE [ 2 ] KO PADHNE KE LIYE YAHAN CLICK KRE....

No comments:

Post a Comment